فراموش کردہ سانحہ اوجڑی کیمپ آج کے تناظر میں
ہوش سنبھالتے ہی اپنے معاشرے کو انسان دوست بنانے کی خواہش میں جو خواب دیکھے تھے ان میں سے ایک بھی سچا ثابت نہیں ہوا۔ جس تمنا نے سب سے زیادہ بے چین رکھا وہ حکومتوں کو عوام کے چنے نمائندوں کے روبرو جواب دہ بنانا تھا۔ اس تناظر میں بقول صوفی تبسم ’’سوبار چمن مہکا-سوبار بہار آئی۔‘‘ انجام میں لیکن …’’دنیا کی وہی رونق دل کی وہی تنہائی۔‘‘
بہت کم لوگوں کو یاد رہ گیا ہوگا کہ 1988ء کے اپریل میں ایک صبح اسلام آباد کی فضائوں میں دھماکوں کے ساتھ اچانک میزائلوں کی بارش شروع ہوگئی تھی۔ ربّ کا لاکھ شکر کہ دل دہلادینے والی آوازوں کے ساتھ زمین پر گرے بموں نے قیامت خیز مناظر سے محفوظ رکھا۔ میزائلوں کی بارش تھمی تو ہم عامیوں کو علم ہوا کہ اسلام آباد کو راولپنڈی سے ملانے والے فیض آباد چوک سے ذرا آگے ایک کیمپ ہے۔ نجانے اسے کیوں ’’اوجڑی‘‘ پکارا جاتا ہے۔وہاں امریکہ کی جانب سے افغانستان پر قابض کمیونسٹ روسی فوج کے خلاف جہاد کرنے والوں کے استعمال کیلئے بھجوائے میزائل ذخیرہ تھے۔ نجانے کس وجہ سے ہتھیاروں کے ذخیرے میں آگ بھڑک اٹھی۔ آگ کی حدت سے وہاں رکھے میزائل ہوا میں اڑ کرپھٹنا شروع ہوگئے۔
ان دنوں فوجی سربراہ کی وردی پہنے جنرل ضیا کے نامزد کردہ محمد خان جونیجو وزیر اعظم تھے۔وہ ایک ایسی قومی اسمبلی کے قائد بھی تھے جسے ’’غیر جماعتی انتخاب‘‘ کے ذریعے منتخب کروایا گیا تھا۔ وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے چند ہی روز بعد مگر جونیجو صاحب نے خود کو ’’سچ مچ کا وزیراعظم‘‘ ثابت کرنے کی کوششیں شروع کردیں۔ بڑھک بازی کے بغیر سرجھکائے اپنے ہدف کی جانب دھیرے دھیرے بڑھتے رہے۔........
© Nawa-i-Waqt
visit website